اس جننی نے میری والدہ کا بھی ابھی تک پیچھا نہیں چھوڑا‘ میری والدہ ہروقت بیمار رہتی ہیں‘ ان کی بھی بالکل ویسی ہی حالت ہے جیسی میری نانی کی ہوتی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے اتنی سخت بیمار ہوئیں کہ کوئی نہیں کہتا تھا یہ بچ جائیں گی۔
(فرزانہ نگہت‘ راولپنڈی)
یہ آج سے اٹھائیس تیس سال پہلے کی بات ہے۔ ان دنوں ہم کوئٹہ میں رہائش پذیر تھے‘ ہمارا کرائے کا وسیع وعریض مکان شہر کے مضافاتی علاقے میں واقع تھا۔ اس کے پیچھے کی طرف کھیت پھیلے ہوئے تھے جبکہ بائیں طرف کچھ کچے کچھ پکے مکانات بنے ہوئے تھے۔ ہمارا کرائے کا وہ مکان خاصا بڑا تھا۔ اس میں ہماری ضرورت سے زائد ہی کمرے تھے۔ تین چار کمروں کو چھوڑ کر باقی کمرے یا تو بند پڑے رہتے تھے یا کبھی کبھار ہی استعمال ہوتے تھے جس واقعہ کا میں ذکر کرنے لگی ہوں وہ اسی مکان سے تعلق رکھتا ہے۔ میری عادت تھی کہ نماز عصر کبھی کبھار اس کمرے میں جاکر پڑھ لیتی تھی جس کے عقب میں کھیت واقع تھے جو زیادہ تر بند ہی رہتا تھا۔ وہ خالی خالی سا کمرہ تھا جس میں ایک پلنگ اور ایک کرسی کے سوا کوئی فرنیچر نہیں تھا۔ ایک دن میں نے نماز عصر پڑھنے کیلئے اس کمرے کا دروازہ کھولا تو مجھےاس میں کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی نظروں سے غائب رہتے ہوئے مجھے دیکھ رہا تھا۔ اس کی موجودگی مجھے ایک کونے میں بچھے ہوئے پلنگ کے پاس محسوس ہورہی تھی۔ میں اس طرف جانے یا دیکھنے کی بجائے خاموشی سے چلتی ہوئی کرسی کی طرف بڑھ گئی اور اس پر رکھا جائے نماز قبلہ رو بچھا کر اس پر نماز پڑھنے کھڑی ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی مجھے یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ نادیدہ مخلوق آہستہ آہستہ چلتی ہوئی میری طرف آرہی تھی اور اب تو باقاعدہ اس کے قدموں کی آہٹ محسوس ہورہی تھی‘ میں ڈرے یا گھبرائے بغیر نماز کی طرف متوجہ رہی‘ میرے سورۂ فاتحہ پڑھنے تک وہ مخلوق جائے نماز کے بالکل قریب آچکی تھی۔ مجھے اس کی موجودگی کا احساس اب بہت واضح طور پر ہورہا تھا۔ وہ میرے بالکل قریب جائے نماز کے دائیں طرف آکر کھڑی ہوگئی تھی۔ اسی وقت میں نے سورۂ فاتحہ ختم کرکے سورۂ اخلاص شروع کردی۔ اس کی پہلی آیت قل ھواللہ احد پڑھنے کے ساتھ ہی مجھے ہلکی سی چیخ کی آواز آئی اور مجھے محسوس ہوا کہ وہ نادیدہ مخلوق وہیں سے الٹے پاؤں بھاگ گئی ہے‘ اب کمرے میں کہیں بھی اس کی موجودگی کا احساس نہ ہورہا تھا‘ بے شک یہ نماز اور سورۂ اخلاص کی برکت تھی جس نے اس مخلوق کو وہاں سے دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کردیا۔ اس کے بعد بھی میں اس کمرے میں خاص طور پر جاکر نماز پڑھتی رہی مگر پھر کبھی وہاں کسی کی موجودگی کا احساس نہ ہوا۔ سورۂ اخلاص قرآن پاک کی ایک انتہائی حسین و جمیل بابرکت سورۂ ہے۔ اس سورۂ کو عزیز رکھنا‘ اس کا ورد نہ صرف بندے پر بے پایاں رحمتوں اور برکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے بلکہ اسے ہر مشکل مصیبت سے بھی نجات عطا کردیتا ہے۔
جننی کی خواہش پوری نہ کرنے کی بھیانک سزا
(پوشیدہ)
محترم قارئین السلام علیکم! میری نانی اماں دیہات میں رہتی ہیں‘ جب وہ چھوٹی تھیں تو وہ مٹی کے گھڑے میں لسی لیکر قرآن مجید پڑھانے والی باجی کے گھر لے جارہی تھیں کہ انہیں راستے میں انسان کی شکل میں ایک جننی ملی۔ اس نے میری نانی اماں کو کہا کہ یہ لسی مجھے دے دو میں اپنے بچوں کو دوں گی۔ میری نانی اماں نے منع کردیا اور کہا کہ اگر میں نے یہ لسی تمہیں دے دی تو میری باجی مجھے مارے گی۔ وہ جننی کہتی رہی مگر میری نانی اماں نہ مانی۔ کچھ دور جاکر میری نانی اماں اتنی زور سے گریں کہ وہ لسی والا گھڑا ٹوٹ گیا۔ اس دن سے لیکر آج تک اس قدر بیمار رہتی ہیں کہ وہ گھر سے باہر ہی نہیں نکل سکتیں جب ان کے بچے پیدا ہوتے تھے تو وہ اس قدر بیمار ہوجاتی تھیں کہ مرتے مرتے بچتی تھیں اور بچوں کو میری پرنانی اماں سنبھالتی تھیں۔ اس طرح سے میری ایک خالہ پر بھی جنات کا اثر ہے۔ پہلے سب کہتے تھے کہ انہیں مرگی کے دورے پڑتے ہیں لیکن اب علاج کروانے سے پتہ چلا ہے کہ ان پر بھی جنات کا اثر ہے‘ وہ نہ قرآن پاک کا دم کیا ہوا پانی پی سکتی ہیں اور نہ تعویذ بھی گلے میں ڈال سکتی ہیں۔
اس جننی نے میری والدہ کا بھی ابھی تک پیچھا نہیں چھوڑا‘ میری والدہ ہروقت بیمار رہتی ہیں‘ ان کی بھی بالکل ویسی ہی حالت ہے جیسی میری نانی کی ہوتی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے اتنی سخت بیمار ہوئیں کہ کوئی نہیں کہتا تھا یہ بچ جائیں گی۔ بڑے بڑے عاملوں سے ان کی پڑھائی کروائی پھر جا کے وہ ٹھیک ہوئیں‘ اب وہ عامل اس دنیا میں نہیں رہے پھر سے میری امی سخت بیمار رہنے لگی ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں